برطانیہ کی نگرانی کی پالیسی نے ایپل کو خفیہ کاری چھوڑنے پر مجبور کر دیا

برطانیہ کی نگرانی کی پالیسی نے ایپل کو خفیہ کاری چھوڑنے پر مجبور کر دیا


ڈیجیٹل دنیا ایک بار پھر نجی زندگی کے تحفظ اور ریاستی نگرانی کے درمیان اصولی بحث کے دہانے پر کھڑی ہے—اور اس وقت برطانیہ اس اہم بحث کا مرکز ہے۔ اِس میں مرکزی حیثیت ایپل کے اُس متنازع فیصلے کو حاصل ہے جس کے تحت حکومت کے دباؤ پر برطانوی آئی کلاؤڈ صارفین کے لیے اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری ختم کر دی گئی ہے۔
ایک پیدائشی برطانوی ہونے کے ناتے میں اس پیش رفت کو نہایت تنقیدی نظر سے دیکھتا ہوں۔ اگرچہ میں اس وقت دبئی میں ہوں اور براہِ راست متاثر نہیں ہوتا، مگر ریاستی سطح پر بنائی گئی “بیک ڈورز” کو میں بنیادی طور پر مسئلہ اور خطرہ سمجھتا ہوں۔

میٹا: برطانیہ نے ایپل کو آئی کلاؤڈ کی اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری ترک کرنے پر مجبور کر دیا — دنیا بھر میں رازداری اور ڈیجیٹل سلامتی کے لیے ایک نازک موڑ۔

فیصلے کا پس منظر: برطانوی قوانین کا دباؤ

فروری 2025 میں ایپل نے اعلان کیا کہ وہ برطانیہ میں “ایڈوانسڈ ڈیٹا پروٹیکشن” (ADP)، یعنی آئی کلاؤڈ ڈیٹا کی اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری، مزید فراہم نہیں کرے گا۔ اس کی وجہ برطانوی حکام کا Investigatory Powers Act (IPA) — جسے “Snoopers’ Charter” بھی کہا جاتا ہے — کے تحت دیا گیا حکم ہے (رائٹرز کی رپورٹ

یہ حکم ایپل کو مجبور کرتا ہے کہ وہ یا تو ایک تکنیکی بیک ڈور بنائے یا — جیسا کہ ایپل نے بالآخر کیا — ADP کو مکمل طور پر غیر فعال کر دے۔ ایپل نے اپنے نظام کی بنیادی سالمیت کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔

تکنیکی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ میں آئی کلاؤڈ بیک اَپس اب اعلیٰ سطح کی حفاظت سے محروم رہیں گے، جس سے صارفین کا ڈیٹا اصولی طور پر زیادہ قابلِ رسائی ہو جائے گا۔

اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری کیسے کام کرتی ہے؟

اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ منتقلی یا ذخیرہ کے دوران ڈیٹا صرف مجاز Endpoints ہی پڑھ سکیں—نہ سروس فراہم کرنے والا اور نہ ہی کوئی تیسرا فریق مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
یہ عموماً کلیدی جوڑوں والی کرپٹوگرافی کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے: بھیجنے والا پیغام کو سرِعام کلید (public key) سے خفیہ کرتا ہے اور صرف مطلوبہ وصول کنندہ اپنی نجی کلید (private key) کے ذریعے اسے کھول سکتا ہے۔ اگر ڈیٹا راستے میں پکڑ لیا جائے یا سرور پر محفوظ ہو، تو درست کلید کے بغیر اسے پڑھا نہیں جا سکتا۔

سادہ الفاظ میں: اگر آئی کلاؤڈ ڈیٹا اینڈ ٹو اینڈ خفیہ ہو تو خود ایپل بھی اسے نہیں پڑھ سکتا — حتیٰ کہ حکومتی حکم پر بھی نہیں کیونکہ ایپل کے پاس مطلوبہ کلیدیں موجود نہیں ہوتیں۔ اس طریقے سے غیر مجاز رسائی کے خلاف اعلیٰ تحفظ ملتا ہے: ڈیٹا لیک یا سرور پر ہیک کی صورت میں بھی معلومات پڑھنے کے قابل نہیں رہتیں۔

ایپل نے خفیہ کاری کو کیوں کمزور کیا؟

ایپل نے اپنی سرکاری بیان میں زور دیا کہ اس نے کبھی کسی پروڈکٹ یا سروس میں بیک ڈور یا ماسٹر کلید شامل نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کرے گا۔ اس کے باوجود کمپنی کو برطانیہ میں آئی کلاؤڈ بیک اَپس کے لیے ایڈوانسڈ ڈیٹا پروٹیکشن غیر فعال کرنا پڑی۔ البتہ پاس ورڈز اور صحت سے متعلق ڈیٹا جیسے حساس زمرے بدستور اینڈ ٹو اینڈ خفیہ رہیں گے، جس سے واضح ہے کہ ایپل نے مکمل طور پر ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ سیاسی دباؤ اور تکنیکی سالمیت کے بیچ ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے۔

یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ زیادہ تر صارفین نے آئی کلاؤڈ کے لیے ایڈوانسڈ ڈیٹا پروٹیکشن فعال ہی نہیں کی تھی۔ یہ آپشن ایک OS اپ ڈیٹ کے ذریعے شامل ہوئی تھی مگر بذاتیہ فعال نہیں ہوتی۔ تو پھر اسے کس نے آن کیا؟ میرے جیسے تکنیکی صارفین نے؟

Investigatory Powers Act (IPA): کمپنیوں پر سیاسی دباؤ

یہ پیش رفت براہ راست “Investigatory Powers Act” کی توسیع کا نتیجہ ہے، جو حکومتِ برطانیہ کو ٹیک کمپنیوں پر خفیہ احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ایپل کو جاری کی گئی یہ طلب اسی قانون کے تحت ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ڈیجیٹل مواصلت تک رسائی کو آسان بناتی ہے۔

ایپل پہلے ہی ایک برس قبل IPA کے اثرات کے بارے میں خبردار کر چکا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے دنیا بھر میں صارفین کا تحفظ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ برطانوی حکومت نہ صرف برطانوی آئی کلاؤڈ اکاؤنٹس بلکہ عالمی سطح پر تمام آئی کلاؤڈ بیک اَپس تک تکنیکی رسائی چاہتی تھی۔ اس پر بین الاقوامی سطح پر، خصوصاً امریکہ میں، احتجاج ہوا جہاں کہا گیا کہ یہ اقدام امریکہ–برطانیہ موجودہ معاہدوں کے منافی ہو سکتا ہے۔

تشویشناک پہلو یہ ہے کہ IPA صرف ایپل تک محدود نہیں ہے۔ اشارے ملتے ہیں کہ واٹس ایپ، سگنل یا تھریما جیسے دیگر اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری والے سروس فراہم کنندگان پر بھی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اس سے لاکھوں صارفین کی رازداری مزید کمزور ہو گی اور ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ کاری کے خلاف یہ جنگ صرف برطانیہ تک محدود نہیں رہنے والی۔

برطانیہ میں ایپل کا فیصلہ: کیا بند کیا گیا؟

ایپل نے ایڈوانسڈ ڈیٹا پروٹیکشن کے ذریعے بہت سے آئی کلاؤڈ ڈیٹا کو مکمل اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کیا تھا۔ اس موڈ میں مثلاً آئی فون بیک اَپس، تصاویر اور نوٹس ایسی سطح پر محفوظ تھے کہ خود ایپل بھی انہیں صاف صورت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب برطانوی حکومت کے دباؤ پر ایپل نے یہ فیچر برطانوی صارفین کے لیے بند کر دیا ہے۔ نئے برطانوی آئی کلاؤڈ صارفین ADP آن نہیں کر سکیں گے اور موجودہ صارفین کو اسے بند کرنے کا کہا جائے گا۔ ایپل نے اس اقدام کو “انتہائی مایوس کن” قرار دیا اور بتایا کہ یہ صرف قانونی تقاضوں کے سبب ہے (Apple Support

ADP کے خاتمے کے بعد، جہاں پہلے ایپل ڈیٹا تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اب مخصوص حالات میں وہ کلاؤڈ میں محفوظ صارف ڈیٹا تک رسائی حاصل کر کے قانونی دباؤ پر حکام کو فراہم کر سکتا ہے۔

یہ تبدیلیاں خاص طور پر اُن اضافی ڈیٹا زمروں کو متاثر کرتی ہیں جو ADP کے تحت محفوظ تھے۔ اگرچہ 14 آئی کلاؤڈ ڈیٹا ٹائپس (مثلاً پاس ورڈز کے لیے iCloud Keychain اور صحت کا ڈیٹا) بدستور اینڈ ٹو اینڈ خفیہ رہیں گی، لیکن دیگر علاقے اب کم سخت اسٹینڈرڈ ڈیٹا پروٹیکشن پر واپس چلے گئے ہیں۔ ایپل کے مطابق برطانوی صارفین اب یہ نو آئی کلاؤڈ ڈیٹا زمرے اینڈ ٹو اینڈ خفیہ نہیں کر سکیں گے:

  • iCloud-Backup (ڈوائس بیک اَپس اور محفوظ iMessage ہسٹری سمیت)
  • iCloud Drive (کلاؤڈ میں محفوظ دستاویزات)
  • تصاویر (iCloud فوٹو گیلری)
  • نوٹس
  • یاددہانیاں
  • Safari بُک مارکس
  • Siri شارٹ کٹس
  • وائس میموز
  • Wallet پاسز اور Freeform مواد

یہ ڈیٹا اب صرف ایپل سرورز پر خفیہ حالت میں محفوظ ہو گا مگر صارف کی خصوصی کلید کے بغیر—یعنی ایپل کے پاس رسائی برقرار رہے گی۔ iMessage اور FaceTime خود اینڈ ٹو اینڈ خفیہ رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی iMessage چیٹس کسی غیر محفوظ آئی کلاؤڈ بیک اَپ میں شامل ہوں گی، نظریاتی طور پر ایپل انہیں دیکھ سکے گا۔ خلاصہ یہ کہ ایپل نے برطانیہ میں اپنی کلاؤڈ سروسز کی اعلیٰ ترین خفیہ کاری واپس لے لی ہے۔ سیکیورٹی ماہرین اسے صارفین کی ڈیٹا سلامتی کے لیے ایک پسپائی قرار دیتے ہیں۔ ADP کی بندش کا مطلب ہے کہ برطانوی صارف اب اُس اہم حفاظتی ڈھال سے محروم ہیں جو انہیں ریاستی نظروں اور سائبر مجرموں دونوں سے بچاتی تھی۔

صارفین کے لیے اس کا مطلب؟

نتائج سنگین ہیں:

  • قانون نافذ کرنے والے ادارے یا دیگر سرکاری محکمے اب آئی کلاؤڈ بیک اَپس طلب کر سکتے ہیں۔
  • جو صارفین ایپل کی ایڈوانسڈ ڈیٹا پروٹیکشن پر انحصار کر رہے تھے، وہ اب اسے UK میں فعال نہیں کر سکتے۔
  • iMessage چیٹس بلاواسطہ آئی کلاؤڈ بیک اَپس کے ذریعے کمزور ہو سکتی ہیں کیونکہ بیک اَپ یا تو پیغامات یا اُن کی کلیدیں رکھتا ہے۔
  • یہ فیصلہ دوسرے ممالک کے لیے مثال بن سکتا ہے کہ وہ ایپل اور دیگر ٹیک کمپنیوں سے ایسی ہی مطالبات کریں۔
  • برطانوی صارفین جنہوں نے ADP فعال کی ہوئی تھی، انہیں جلد اسے دستی طور پر بند کرنا پڑے گا تاکہ آئی کلاؤڈ استعمال کر سکیں۔
  • دنیا بھر کے صارفین سوچ رہے ہوں گے کہ اگر حکومتی دباؤ بڑھا تو ایپل دوسرے ملکوں میں بھی اسی طرح کا قدم اٹھا سکتا ہے۔

اب کون سا ڈیٹا زیادہ خطرے میں ہے؟

مندرجہ بالا iCloud مواد خاص طور پر غیر ارادی رسائی کے لیے زیادہ کمزور ہو گیا ہے۔ iCloud-Backup انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے: اس میں ڈیوائس کی مکمل بیک اَپ ہوتی ہے جس میں چیٹ ہسٹری، تصاویر، رابطے اور ایپ ڈیٹا شامل ہے۔ پہلے بھی ADP کے بغیر ان بیک اَپس میں iMessage کی کاپیاں موجود ہوتی تھیں—ایک دروازہ جسے ایپل نے خود تسلیم کیا اور ADP کے ذریعے بند کرنا چاہا۔ ADP کی بندش کے بعد یہ بیک اَپس برطانیہ میں اب بھی دستیاب رہیں گی۔ قانونی حکم کی صورت میں ایپل انہیں کھول کر حکام کو فراہم کر سکتا ہے۔ اس طرح نجی تصاویر، دستاویزات، نوٹس اور وائس میموز اصولی طور پر عدالت کے حکم پر دستیاب ہیں۔

آئی ٹی سیکیورٹی کے زاویے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہی کمزوری مجرموں اور ہیکرز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ خفیہ کاری میں دانستہ بنائی گئی ہر بیک ڈور بالآخر بُروں کے ہاتھ لگتی ہے۔ الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے اینڈریو کروکر کا کہنا ہے کہ ایپل کے فیصلے نے برطانوی صارفین کو “بُرے عناصر کے رحم و کرم پر” چھوڑ دیا ہے۔ اینڈ ٹو اینڈ تحفظ کے بغیر یہ ڈیٹا نہ صرف حکام بلکہ سرور کی کسی کمزوری یا اندرونی غلط استعمال کی صورت میں بھی صاف حالت میں چرایا جا سکتا ہے۔ یوں ADP کا خاتمہ مزید خطرات کو جنم دیتا ہے کہ ذاتی معلومات غلط ہاتھوں میں چلی جائیں—چاہے وہ اندرونی بدعنوانی ہو، ہیکنگ حملے ہوں یا وسیع نگرانی۔

امریکہ: ٹرمپ انتظامیہ کا ردِّعمل

برطانیہ کی جانب سے ایپل کو آئی کلاؤڈ میں بیک ڈور شامل کرنے کا خفیہ حکم واشنگٹن میں شدید ناراضی کا باعث بنا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی حکومت کے اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کا موازنہ چین جیسے آمرانہ اقدامات سے کیا۔ برطانوی سیاسی جریدے The Spectator کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کو واضح کر دیا ہے کہ ایسا قدم ناقابلِ قبول ہے۔

ایپل کو فروری کے اوائل میں IPA کے متنازعہ تحت ایک خفیہ ہدایت موصول ہوئی تھی۔ مارچ 2025 کے وسط تک ایپل کو اس ہدایت کی موجودگی کی تصدیق کی اجازت نہیں تھی؛ Investigatory Powers Tribunal کی ایک فیصلے کے بعد اب کم از کم یہ حقیقت عوامی ہے کہ معاملہ زیرِ سماعت ہے۔

2016 کا Apple-FBI کیس

البتہ امریکہ بھی رازداری کے معاملے میں بے داغ نہیں، PRISM اسکینڈل کے علاوہ۔ 2016 کے Apple-FBI کیس میں سان برنارڈینو دہشت گرد حملے کے تناظر میں FBI نے مطالبہ کیا کہ ایپل ایک خاص سافٹ ویئر بنائے تاکہ ایک آئی فون 5c کے حفاظتی فیچرز کو بائی پاس کر کے ڈیٹا تک رسائی ہو سکے۔ FBI کا مؤقف تھا کہ یہ قدم اہم شواہد کے لیے ضروری ہے، جبکہ ایپل نے انکار کیا کیونکہ ایسا قدم ایک بیک ڈور کھول دیتا اور تمام صارفین کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا۔ بالآخر FBI نے ایک تیسری پارٹی کے ذریعے فون ان لاک کروا لیا اور براہ راست مطالبہ واپس لے لیا گیا۔

وائٹ ہاؤس میں ملاقات

یہ معاملہ سفارتی سطح پر بھی زیرِ بحث آیا۔ ٹرمپ نے حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس میں یوکرین اور دوطرفہ تجارتی معاہدے سمیت یہ معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ The Spectator کے مطابق برطانیہ کے قدامت پسند حلقوں میں یہ موضوع بدستور متنازع ہے۔
امریکی حکومت کو خدشہ ہے کہ برطانیہ کا قدم ایک نظیر بن سکتا ہے، جس سے دیگر ممالک کو ٹیک کمپنیوں پر اسی طرح کا دباؤ ڈالنا آسان ہو جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ یہ بھی جانچ رہی ہے کہ آیا برطانیہ کا یہ اقدام دوطرفہ معاہدوں، بالخصوص Cloud Act Agreement کی خلاف ورزی ہے، جو امریکی افراد کے ڈیٹا کی برطانوی طلب کو امریکی حکومت کی منظوری کے بغیر منع کرتا ہے۔ خلاف ورزی ثابت ہونے پر سفارتی نتائج نکل سکتے ہیں۔ Director of National Intelligence ٹلسی گیبرڈ نے قانونی ماہرین کو جائزہ لینے کا کہا ہے۔ ابتدائی اندازے ایک ممکنہ خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کے مطابق برطانیہ امریکی شہریوں کا ڈیٹا امریکی حکومت کی منظوری کے بغیر نہیں مانگ سکتا۔

صارفین کیا کر سکتے ہیں؟

صارفین کے پاس محض چند متبادل ہیں:

  • برطانیہ میں آئی کلاؤڈ بیک اَپس استعمال نہ کریں اور مقامی بیک اَپس بنائیں۔
  • میسنجر کی آئی کلاؤڈ بیک اَپس بند رکھیں اگر زیادہ سے زیادہ تحفظ مقصود ہے—کیونکہ صرف تب iMessage یا واٹس ایپ وغیرہ کا مواد واقعی صرف ڈیوائسز تک محدود رہتا ہے، ایپل کے سرور تک نہیں۔
  • اوپن سورس میسنجر—چیٹ اور کال کے لیے سگنل یا ایلیمنٹ جیسی ایپس استعمال کریں جو مضبوط اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری رکھتی ہیں۔
  • جہاں ممکن ہو، ایسی سروسز استعمال کریں جو اب بھی مضبوط اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری فراہم کرتی ہیں۔
  • ایپل اور گوگل کلاؤڈ جیسے بڑے پلیٹ فارم کے متبادل تلاش کریں جو ریاستی مداخلت سے کم متاثر ہوں۔
  • سیاسی دباؤ ڈالیں تاکہ جمہوری ممالک میں بھی رازداری کے حقوق مضبوط کیے جائیں۔
  • وی پی این اور محفوظ مواصلاتی سروسز—اگرچہ یوکے قانون محفوظ شدہ ڈیٹا پر زیادہ مرکوز ہے، پھر بھی مجموعی رابطے کو مضبوط کرنا نقصان نہیں دیتا۔

تازہ ترین پیش رفت (مارچ 2025)

گوگل پر بھی خفیہ بیک ڈور کا شبہ (Technical Capability Notice, TCN)

  • heise online کی 18 مارچ 2025 کی رپورٹ کے مطابق اشارے ملتے ہیں کہ نہ صرف ایپل بلکہ گوگل کو بھی IPA کے تحت ایک خفیہ TCN موصول ہوا ہے۔ ایپل اور گوگل، دونوں نے امریکی سینیٹر ران وائڈن کے دفتر کو بتایا کہ وہ “اگر ایسا ہو” تو TCN کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق نہیں کر سکتے—یہ خود ایک واضح اشارہ ہے کہ کوئی حکم چل رہا ہے۔
  • TCN کمپنیوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسی تکنیکی صلاحیت برقرار رکھیں جس سے خفیہ مواد کو طلب کیے جانے پر قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔ وصول کنندہ اس کے وجود کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا۔

ایپل نے خفیہ حکم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا

  • ایپل نے Investigatory Powers Tribunal میں سرکاری طور پر TCN کے خلاف شکایت جمع کرائی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس بیک ڈور کے تقاضے کو غیر متناسب اور خطرناک قرار دے کر چیلنج کیا جائے۔

امریکہ سے دو جماعتی دباؤ

  • سینیٹر ران وائڈن اور دیگر چار اراکینِ کانگریس کے دو جماعتی کھلے خط میں IPT سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ TCNs کے گرد پردۂ راز کم از کم امریکی کمپنیوں کے لیے ہٹایا جائے تاکہ ان کے سیکیورٹی ماہرین تکنیکی تقاضوں کا جائزہ لے سکیں۔ سینیٹرز نے خبردار کیا کہ جبری بیک ڈورز امریکی قومی سلامتی اور اظہار و رازداری کے حقوق کو کمزور کرتی ہیں۔

عدالت نے کچھ تفصیلات پر سے پردہ اٹھایا

  • IPT نے 17 مارچ 2025 کی ایک عبوری فیصلے میں برطانوی وزارتِ داخلہ کی درخواست مسترد کر دی: اب Apple v. Home Office مقدمے کی موجودگی اور فریقین کے نام عام کیے جا سکتے ہیں۔ مواد کی تفصیلات تاحال خفیہ ہیں، لیکن شفافیت کے لیے یہ ایک عبوری کامیابی ہے۔

مضمون کے لیے نتیجہ:

  • یہ شبہ درست ثابت ہوا کہ ایپل “تنھا کیس” نہیں۔
  • قانونی کشمکش اب مکمل طور پر خفیہ نہیں رہی؛ ایپل کم از کم یہ بتا سکتا ہے کہ وہ مقدمہ کر رہا ہے۔
  • صارفین اور مبصرین معاملے کی جزوی طور پر کھلی سماعت دیکھ سکیں گے۔

آخری کلمات

یہ معاملہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ جمہوری ریاستیں بھی ٹیک کمپنیوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ ڈیجیٹل خفیہ کاری کو کمزور کریں اور نجی ڈیٹا تک رسائی دیں۔ ایپل نے یہاں ایک عملی راستہ چُنا—“نسبتاً کم بُرا”—جس کے تحت اس نے برطانوی صارفین کے لیے اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری غیر فعال کر دی۔ اصل مسئلہ مگر ایپل نہیں بلکہ وہ سیاسی فیصلے ہیں جو برطانیہ میں اور غالباً جلد دیگر ممالک میں بھی کیے جائیں گے۔

صارفین کے لیے یہ ایک واضح تنبیہ ہے: کلاؤڈ میں موجود ڈیٹا خود بخود محفوظ نہیں ہوتا۔ خفیہ کاری اب بھی نجی زندگی کے تحفظ کے چند مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ کتنی کمپنیاں سیاسی دباؤ کے باعث پہلے ہی بیک ڈور شامل کر چکی ہیں۔

یہ بلاشبہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جسے عام صارف تکنیکی طور پر سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ مجھے خود معلوم ہے کہ میں ایک “ٹیک ببل” میں رہتا ہوں—میرا قریبی حلقہ بھی اسی طرح ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو کھلے اور قابلِ فہم انداز میں جاری رکھنا ضروری ہے۔

برطانوی آئی کلاؤڈ صارفین کے لیے اینڈ ٹو اینڈ خفیہ کاری کی بندش واضح طور پر دکھاتی ہے کہ ریاستی نگرانی اور ڈیجیٹل رازداری کا ٹکراؤ کس طرح ہوتا ہے۔ خفیہ کاری کی تکنیکی کمزوری نہ صرف حکام بلکہ ممکنہ طور پر دیگر عناصر کے لیے بھی حساس ڈیٹا کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری معاشرہ کتنی نگرانی برداشت کر سکتا ہے بغیر اپنی آزادی کو خطرے میں ڈالے۔

صارفین کو چاہیے کہ وہ اپنے ڈیٹا کا زیادہ شعوری تحفظ کریں اور ساتھ ہی سماجی سطح پر سرگرم ہوں: معلومات حاصل کریں، شعور بیدار کریں اور ڈیجیٹل آزادی کے حقوق کا دفاع کریں۔ برطانوی مثال واضح یاد دہانی ہے کہ نجی زندگی کوئی خودکار حق نہیں۔ سلامتی اور رازداری ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک فعال جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں—اس توازن کے لیے جدوجہد کرنا لازم ہے۔

© 2025 trueNetLab